ہر دور میں مختلف قسم کے ہتھیار استعمال کئے جاتے رہے ہیں اور یہ ہتھیار تبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک ہتھیار ایسا ہے جو ہر دور میں استعمال ہوا اور جس نے بھی کیا سے خاطر خواہ کامیابیاں بھی ملیں اور وہ ہتھیار خوشامد ہے۔کہتے ہیں خوشامد کا فن دربار کی پیداوار ہے اور یہ ایسے ماحول میں خوب پھلتا پھولتا ہے کہ جہاں اختیارات اور اقتدر کسی ایک شخص کے پاس ہوں۔ترقی اور فوائد کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ بااقتدار شخص کی تعریف وتوصیف کرکے اس کی حمایت حاصل کی جائے اور اپنی ضرورت کے لئے فوائد حاصل کئے جائیں۔ ان حالات میں ذہانت اور قابلیت کی اہمیت نہیں رہتی بلکہ خوشامد ایک ایسا موثر ہتھیار بن جاتا ہے کہ جو کامیابی کے لئے ضروری ہے۔ ملک کے حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ تمام حکمرانوں اور خوشامدیوں میں مقابلہ شروع ہوگیا ہے ہر ایک کی یہ کوشش ہے کہ ایک دوسرے سے بازی لے جائے۔ کہتے ہیں کہ اکبر کے دربار میں جب اس بات پر بحث ہوئی کہ ادب میں بادشاہ کو سجدہ کرنا چاہیے یا نہیں تو کچھ نے کہا کہ سجدہ تعظیمی مذہب میں جائز ہے، اس پر دوسرے علماءکو افسوس ہوا کہ انہیں یہ بات کیوں نہیں سوجھی۔خوشامد کے اس فن میں قصیدہ کی روایات کو اہمیت ملی اور شاعروں کو موقع ملا گیا کہ وہ اپنے ممدوح کی شان میں ایسے قصیدے کہیں کہ سننے والے حیران رہ جائیں۔ قصیدوں میں بے بس اور مجبور بادشاہ کو رسم و سیراب سے ملایا گیا اور ان کی فیاضی کو قارون اور عدل کو نوشیروان سے تشبیہہ دی گئی۔
ہمارے ملک میں خوشامد، مارشل لاءدور میں خوب پھلی پھولی، ایوب خان کبھی مشرق کے ڈیگال ہوئے اور کبھی فیلڈ مارشل، پھر یہ خوشامد اوپر سے نیچے کی جانب آتی چلی گئی۔ دفتروں میں افسروں کی خوشامد ہونے لگی تو یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر اور صدر شعبہ اس کے مرکز بن گئے ،معاشرے میں یہ کلچر اس قدر تیزی سے پھیلا کہ اس کے بغیر کامیاب ہونا ناممکن ہوگیا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران ایک جانب تو خود خوشامدیوں کے درمیان گھرے ہوئے ہیں تو دوسری جانب وہ خود اپنے اقتدار کو طول دینے اور مضبوط کرنے کے لئے مختلف محکموں اور حکومتوں کے ساتھ وہی عمل روا رکھتے ہیں جو ان کے درباری ان کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس وقت کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت موجود نہ ہے جس میں خوشامدیوں کا ٹولا نہ پایا جاتا ہو۔ (ن) لیگ میں رہنا ہے تو میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف، پی پی پی میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو آصف علی زرداری اور بھٹو خاندان اور اگر تحریک انصاف میں ترقی پانی ہے تو خان صاحب کو خوش رکھیں اور تو اور اگر عام آدمی نے بھی سیاست کا آغاز کرنا ہے تو اب تو ان کے درباریوں کی خوشامدی بھی ضروری ہے۔
پاکستان میں ایسے باکمال افراد موجود ہیں جنہوں نے خوشامد کو اپنے عروج پر پہنچا دیا ہے یہ لوگ ضیاءالحق کے زمانے میں بھی اعلیٰ عہدوں پر رہے اور بڑی خوب صورتی کے ساتھ انہوں نے خود کو بعد میں جمہوریت کا چیمپئن بنالیا ۔جب مشرف برسراقتدار آنے پر لوگ لبرل ازم کے نام پر اس کے حامی ہوگئے، ایک بار جب کسی نے اعلیٰ عہدیدار سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے ارد گرد جو لوگ جمع ہیں، یہ آپ سے پہلے کے صاحب اقتدار کے اتنے ہی حامی تھے جتنے آپ کے ہیں تو اس نے کہا ہمیں ایسے ہی بے شرموں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ درست بھی ہے، کیونکہ جب نااہل اقتدار میں آجائیں انہیں بے شرم اور نااہل لوگ ہی چاہیے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ اصول پسند لوگ نہیں چل سکتے کیونکہ وہ ان کے ہرجائز اور ناجائز حکم کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ جب اختیارات ختم ہوجائیں تو دولت افراد کو بااختیار بھی بنادیتی ہے اور وہ معاشرہ میں قابل عزت بھی ہوجاتے ہیں۔ اس کو پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کہ جب معاشرہ میں دولت عزت و وقار، تعظیم کی بنیاد بن جائے اور مرد کی ایمانداری و دیانت کی اہمتی نہیں رہے تو اس صورت میں لوگ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دولت حاصل کرکے باعزت بننے کی کوشش کرتے ہیں، پھر اس دولت کو پاک صاف کرنے کے لئے لوگوں کے لئے لنگر خانے قائم کرتے ہیں اور کبھی حج و عمرہ کرنے چلے جاتے ہیں۔
گزشتہ 67 سال میں ہم خوش آمد کرتے اور سنتے آئے ہیں اور اس حال کو پہنچ چکے ہیں اگر ہم صحیح معنوں میں پاکستان میں آزادی اور انقلاب چاہتے ہیں تو ہمیں اس زہر قاتل سے نجات حاصل کرنا ہوگی، صرف حکومت بدلنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
ہمارے ملک میں خوشامد، مارشل لاءدور میں خوب پھلی پھولی، ایوب خان کبھی مشرق کے ڈیگال ہوئے اور کبھی فیلڈ مارشل، پھر یہ خوشامد اوپر سے نیچے کی جانب آتی چلی گئی۔ دفتروں میں افسروں کی خوشامد ہونے لگی تو یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر اور صدر شعبہ اس کے مرکز بن گئے ،معاشرے میں یہ کلچر اس قدر تیزی سے پھیلا کہ اس کے بغیر کامیاب ہونا ناممکن ہوگیا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران ایک جانب تو خود خوشامدیوں کے درمیان گھرے ہوئے ہیں تو دوسری جانب وہ خود اپنے اقتدار کو طول دینے اور مضبوط کرنے کے لئے مختلف محکموں اور حکومتوں کے ساتھ وہی عمل روا رکھتے ہیں جو ان کے درباری ان کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس وقت کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت موجود نہ ہے جس میں خوشامدیوں کا ٹولا نہ پایا جاتا ہو۔ (ن) لیگ میں رہنا ہے تو میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف، پی پی پی میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو آصف علی زرداری اور بھٹو خاندان اور اگر تحریک انصاف میں ترقی پانی ہے تو خان صاحب کو خوش رکھیں اور تو اور اگر عام آدمی نے بھی سیاست کا آغاز کرنا ہے تو اب تو ان کے درباریوں کی خوشامدی بھی ضروری ہے۔
پاکستان میں ایسے باکمال افراد موجود ہیں جنہوں نے خوشامد کو اپنے عروج پر پہنچا دیا ہے یہ لوگ ضیاءالحق کے زمانے میں بھی اعلیٰ عہدوں پر رہے اور بڑی خوب صورتی کے ساتھ انہوں نے خود کو بعد میں جمہوریت کا چیمپئن بنالیا ۔جب مشرف برسراقتدار آنے پر لوگ لبرل ازم کے نام پر اس کے حامی ہوگئے، ایک بار جب کسی نے اعلیٰ عہدیدار سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے ارد گرد جو لوگ جمع ہیں، یہ آپ سے پہلے کے صاحب اقتدار کے اتنے ہی حامی تھے جتنے آپ کے ہیں تو اس نے کہا ہمیں ایسے ہی بے شرموں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ درست بھی ہے، کیونکہ جب نااہل اقتدار میں آجائیں انہیں بے شرم اور نااہل لوگ ہی چاہیے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ اصول پسند لوگ نہیں چل سکتے کیونکہ وہ ان کے ہرجائز اور ناجائز حکم کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ جب اختیارات ختم ہوجائیں تو دولت افراد کو بااختیار بھی بنادیتی ہے اور وہ معاشرہ میں قابل عزت بھی ہوجاتے ہیں۔ اس کو پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کہ جب معاشرہ میں دولت عزت و وقار، تعظیم کی بنیاد بن جائے اور مرد کی ایمانداری و دیانت کی اہمتی نہیں رہے تو اس صورت میں لوگ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دولت حاصل کرکے باعزت بننے کی کوشش کرتے ہیں، پھر اس دولت کو پاک صاف کرنے کے لئے لوگوں کے لئے لنگر خانے قائم کرتے ہیں اور کبھی حج و عمرہ کرنے چلے جاتے ہیں۔
گزشتہ 67 سال میں ہم خوش آمد کرتے اور سنتے آئے ہیں اور اس حال کو پہنچ چکے ہیں اگر ہم صحیح معنوں میں پاکستان میں آزادی اور انقلاب چاہتے ہیں تو ہمیں اس زہر قاتل سے نجات حاصل کرنا ہوگی، صرف حکومت بدلنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
0 comments:
Post a Comment